Tuesday, 14 October 2025

کہہ رہا تھا میں زمانہ گوش بر آواز تھا

 کہہ رہا تھا میں زمانہ گوش بر آواز تھا

دل شکن قصے کا کتنا دل نشیں انداز تھا

اف وہ دورِ حسن جب ہر لمحہ جان ناز تھا

کمسنی جانے پہ مچلی تھی شباب آغاز تھا

رخصتِ فریاد پر بھی میں سراپا راز تھا

گِریہ تھا بے آب یکسر نالہ بے آواز تھا

لن ترانی کی صدا کا گرم اک انداز تھا

جس کو موسیٰ جلوہ سمجھے شعلۂ آواز تھا

طور پر بجلی زمیں پر گل فلک پر چاندنی

مسکرانے کا تِرے ہر جا نیا انداز تھا

اڑ کے پہنچی روح گلشن تن قفس میں رہ گیا

قید ہونے پر بھی میں کتنا سبک پرواز تھا

طاقت پرواز رعشہ بن کے رخصت ہو گئی

عازمِ پرواز پھر بھی عازمِ پرواز تھا


سروش لکھنوی

No comments:

Post a Comment