Tuesday, 14 October 2025

وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر

 وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر

ہم بھاگتے تھے زلفِ گِرہ گِیر دیکھ کر

جب تک نہ خاک ہو جیے حاصل نہیں کمال

یہ بات کھل گئی ہمیں اکسیر دیکھ کر

عذرِ گناہ داورِ محشر سے کیوں کروں

غم مٹ گیا ہے نامۂ تقدیر دیکھ کر

ہوں تشنہ کام دشت شہادت زبس کہ میں

گرتا ہوں آب خنجر و شمشیر دیکھ کر

عارف چھپا تو ہم سے ولے ہم تو پا گئے

جو بات ہے یہ رنگ کی تغییر دیکھ کر


زین العابدین عارف

No comments:

Post a Comment