بوجھ اپنے بدن کا بھی اٹھایا نہیں جاتا
اب مجھ سے یہ پیار اور کمایا نہیں جاتا
اس واسطے میں زخم دکھاتا نہیں اس کو
احساس تو ہوتا ہے، دِلایا نہیں جاتا
اک یارِ منافق نے سبق خوب دیا ہے
چاہوں بھی بتانا تو بتایا نہیں جاتا
اب مجھ سے کہانی یہ سنائی نہیں جاتی
اب مجھ سے یہ کردار نبھایا نہیں جاتا
ہر درد پہ لازم تو نہیں گِریہ و ماتم
ہر زخم مِری جان! دکھایا نہیں جاتا
کل تک وہ مِرا یار جگر جان تھا ساجد
نظروں سے گِرا آج اٹھایا نہیں جاتا
ساجد محمود
No comments:
Post a Comment