لہو میں جسم کو جو تر بہ تر لے کر نہیں آئے
یقیناً نامہ بر اچھی خبر لے کر نہیں آئے
وفا کے بحر میں اک خواہشِ معصوم ڈوبی تھی
ابھی تک لاش ساحل پر بھنور لے کر نہیں آئے
تمہیں کیا ہے جو تنہائی میں ہم آنسو بہاتے ہیں
تمہاری بزم میں تو چشمِ تر لے کر نہیں آئے
مری دانست میں ایسے سفر سے موت بہتر ہے
پرندے جس سفر سے اپنے پر لے کر نہیں آئے
لہو روتا ہے دل جب پوچھتے ہیں آشنا رستے
تم اپنے ساتھ اپنا ہمسفر لے کر نہیں آئے
خبر پھیلی ہے باہر جب سے بارودی کھلونوں کی
مرے بچے کوئی بھی چیز گھر لے کر نہیں آئے
مری دانست میں ایسے سفر سے موت بہتر ہے
پرندے جس سفر سے اپنے پر لے کر نہیں آئے
ہمارا قتل ہونا تو یقینی تھا وہاں غزنی
تماشائی بھی اس مقتل سے سر لے کر نہیں آئے
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment