زمانے میں کسی سے اب وفائیں کون کرتا ہے
یہاں سب زخم دیتے ہیں دوائیں کون کرتا ہے
گلہ شکوہ نہیں کوئی مگر سب کُچھ سمجھتا ہوں
بُجھانے کو دیے میرے ہوائیں کون کرتا ہے
لُٹا ہو کارواں جس کا اُجالوں کے اشاروں سے
اندھیری رات چلنے کی خطائیں کون کرتا ہے
یہاں انسان کی چھوڑو پرندے بھی سمجھتے ہیں
محبت کون کرتا ہے،۔ جفائیں کون کرتا ہے
کسی سے بھول کر اپنا کبھی مت دردِ دل کہنا
یہاں ماں کے علاوہ اب دعائیں کون کرتا ہے
دویش دکشت دیو
No comments:
Post a Comment