Wednesday, 15 October 2025

جو تمام عمر بن کر مرا حوصلہ رہی ہے

 جو تمام عمر بن کر مِرا حوصلہ رہی ہے

وہی آج میری غیرت مجھے آزما رہی ہے

مِری فکر جانے مجھ کو کہاں لے کے جا رہی ہے

کہ قدم قدم پہ منزل سرِ راہ آ رہی ہے

نہیں چھوڑتی ہے مجھ کو کسی موڑ پر یہ دنیا

میں اسے رُلا رہا ہوں یہ مجھے رُلا رہی ہے

تُو یہ جانتا ہے پھر بھی نہیں فکر آخرت کی

تِری موت رفتہ رفتہ تِرے پاس آ رہی ہے

جو اب آ گئے ہو تم تو مجھے چھوڑ کر نہ جانا

کہ تمہارے بن یہ ہستی بڑی بے مزا رہی ہے

مِری زندگی کے مالک میں یہ تجھ سے پوچھتا ہوں

مجھے کیوں جہاں میں بھیجا مِری کیا خطا رہی ہے

یہ نہ ہو کہ وقت آخر رہے دل کی بات دل میں

مِری جان! اب تو آ جا، مِری جان جا رہی ہے

جو تمہیں ملا ہے منصب اسے دائمی نہ سمجھو

کسی ایک کی حکومت یہاں کب سدا رہی ہے

مجھے اب یہ لگ رہا ہے وہ خزاں تھی ٹھیک رہبر

یہ بہار کیسے کیسے نئے گُل کِھلا رہی ہے


معید رہبر لکھنوی

No comments:

Post a Comment