اپنے وطن میں صبر شکن دن گزار کے
معنی بدل دئیے میں غریب الدیار کے
اک سجدہ عاجزی کا بہت ہے مِرے لیے
واقف ہوں میں مزاج سے پروردگار کے
میرے طلب کی چیز تِرے پاس بھی نہیں
شرمندہ کیوں کروں تجھے دامن پسار کے
ممکن ہے طے نہ ہوں یہ شبِ غم کے مرحلے
اب سلسلے دراز ہیں گیسوئے یار کے
ہم کیا، ہمارے جیسے بہت دلنواز لوگ
الجھن میں پڑ گئے، تِری زلفیں سنوار کے
افسر! تمام شہر میں پیدا ہو دل کشی
پھر تذکرے کرو لب و رخسارِ یار کے
خورشید افسر بسوانی
No comments:
Post a Comment