Friday, 14 November 2025

کانٹوں کی چبھن مانگنے والے نہیں جاتے

 کانٹوں کی چبھن مانگنے والے نہیں جاتے

مدت سے مِرے پاؤں کے چھالے نہیں جاتے

اک سمت سے روکوں تو اُٹھیں دوسری جانب

طُوفان، سمندر سے نکالے نہیں جاتے

آنکھوں میں مِرے دل کی اُتر آتے ہیں اکثر

وہ خواب جو فطرت سے سنبھالے نہیں جاتے

ذہنوں کو یہ بُجھ کر بھی کیا کرتے ہیں روشن

دن میں بھی چراغوں کے اُجالے نہیں جاتے

یہ کہہ کے مِرے دل کے سبھی اُڑ گئے پنچھی

پر باندھ کے ہم باغ میں پالے نہیں جاتے

مانا کہ اندھیرے میں ہیں اسرار فضائیں

خوابوں کے مگر بند اُجالے نہیں جاتے


اسرار اکبرآبادی

سید اسرار حسین

No comments:

Post a Comment