سوچ چھوٹی ہے بڑے یار نہیں ہو سکتے
ہم دِوانوں کا تو معیار نہیں ہو سکتے
وہ جو نا شاعرِ اعظم کے دِوانے ٹھہرے
وہ ہمارے تو خریدار نہیں ہو سکتے
ایسے ویسوں کے جو دُم چھلے بنے پھرتے ہیں
یار وہ لوگ تو بیدار نہیں ہو سکتے
قد میں تم سے جو بڑے ہیں انہیں بونا کہہ کر
تم کبھی قد میں بڑے یار نہیں ہو سکتے
وہ تو تعدادِ اشاعت میں رہیں گے پیچھے
جھوٹ میں آگے جو اخبار نہیں ہو سکتے
نا سمجھ اُن کو بھی سمجھے جو ہیں تم سے آگے
پھِر تو تم کچھ ہو، سمجھدار نہیں ہو سکتے
ہم سے ہو پائے گا سمجھوتا نظریے سے کہاں
ہم سیاست تِرے بیمار نہیں ہو سکتے
تُجھ سے مِلنے کے لیے آنے کو آ جائیں مگر
تِرے دربار کا کِردار نہیں ہو سکتے
جو خودی ساتھ لیے در پہ کسی جائیں بھی
سیف وہ حاشیہ بردار نہیں ہو سکتے
محمد سیف بابر
No comments:
Post a Comment