Sunday, 23 November 2025

درد بھی اس نے دیا عشق کے پیغام کے ساتھ

 درد بھی اس نے دیا عشق کے پیغام کے ساتھ

پی لیا زہر ہلاہل مئے گلفام کے ساتھ

لطف جب ہے کہ مسرت بھی ہو آلام کے ساتھ

کوئی جینا نہیں جینا ہو جو آرام کے ساتھ

داغ دل داغ جگر حسرت و فریاد و فغاں

مجھ کو تحفے یہ ملے عشق کے پیغام کے ساتھ

قرب ساحل مِری کشتی کو ڈبونے والو

ذکر آئے گا تمہارا بھی مِرے نام کے ساتھ

مسکراتے ہوئے جو ڈال دو انجم پہ نظر

ہر بلا سر سے گزر جائے گی آرام کے ساتھ


انجم دتیاوی

حبیب احمد 

No comments:

Post a Comment