درد بھی اس نے دیا عشق کے پیغام کے ساتھ
پی لیا زہر ہلاہل مئے گلفام کے ساتھ
لطف جب ہے کہ مسرت بھی ہو آلام کے ساتھ
کوئی جینا نہیں جینا ہو جو آرام کے ساتھ
داغ دل داغ جگر حسرت و فریاد و فغاں
مجھ کو تحفے یہ ملے عشق کے پیغام کے ساتھ
قرب ساحل مِری کشتی کو ڈبونے والو
ذکر آئے گا تمہارا بھی مِرے نام کے ساتھ
مسکراتے ہوئے جو ڈال دو انجم پہ نظر
ہر بلا سر سے گزر جائے گی آرام کے ساتھ
انجم دتیاوی
حبیب احمد
No comments:
Post a Comment