لمحے جو شوخ شوخ سے منظر کی آس تھے
اجلا بدن پہن کے سبھی بے لباس تھے
موسم کہ زرد زرد سا پلکوں پہ تھا سجا
آنکھوں میں جو بسے سبھی منظر اداس تھے
گہرائیوں میں فکر کی کھوئے رہے تھے جو
لمحے وہ اضطراب کے جینے کی آس تھے
مچلی تھی انگ انگ میں چاہت نئی نئی
بیکل جنوں کے حادثے قُربت کو راس تھے
انداز شبنمی تھا وہ ان کے وجود کا
لمحے مِری اسوچ کے کچھ آس پاس تھے
ذہنوں پہ چھا گیا تھا وہ بے خواب آسماں
دھرتی پہ خواب خواب سے لمحے نراس تھے
مانا اڑان وہم کی رقصِ شرر سی تھی
کچھ ہمہمے یقین کے بھی آس پاس تھے
کرشن مراری سہگل
No comments:
Post a Comment