Tuesday, 18 November 2025

لمحے جو شوخ شوخ سے منظر کی آس تھے

 لمحے جو شوخ شوخ سے منظر کی آس تھے

اجلا بدن پہن کے سبھی بے لباس تھے

موسم کہ زرد زرد سا پلکوں پہ تھا سجا

آنکھوں میں جو بسے سبھی منظر اداس تھے

گہرائیوں میں فکر کی کھوئے رہے تھے جو

لمحے وہ اضطراب کے جینے کی آس تھے

مچلی تھی انگ انگ میں چاہت نئی نئی

بیکل جنوں کے حادثے قُربت کو راس تھے

انداز شبنمی تھا وہ ان کے وجود کا

لمحے مِری اسوچ کے کچھ آس پاس تھے

ذہنوں پہ چھا گیا تھا وہ بے خواب آسماں

دھرتی پہ خواب خواب سے لمحے نراس تھے

مانا اڑان وہم کی رقصِ شرر سی تھی

کچھ ہمہمے یقین کے بھی آس پاس تھے


کرشن مراری سہگل

No comments:

Post a Comment