Sunday, 23 November 2025

مدعی عشق کے چہروں ہی پہ مرتے دیکھے

 مدعی عشق کے چہروں ہی پہ مرتے دیکھے

راستے دل کے بدن ہی سے گزرتے دیکھے

خود پرستی میں انا میں حد فاصل کھینچی

کتنے چہرے انہی آنکھوں نے اترتے دیکھے

زندگی سے کوئی سمجھوتہ بہت ممکن تھا

مڑ کے دیکھا تو سبھی فیصلے مرتے دیکھے

میری آنکھوں سے ہے شکوہ تو وہ آئینہ اٹھائے

اور آئینوں کو سرگوشیاں کرتے دیکھے

کس کے گھر آئے تھے کہہ دوں تو بڑائی ہو گی

ورنہ انوار تو لوگوں نے اترتے دیکھے


تاج مہجور

تاج الدین احمد

No comments:

Post a Comment