مدعی عشق کے چہروں ہی پہ مرتے دیکھے
راستے دل کے بدن ہی سے گزرتے دیکھے
خود پرستی میں انا میں حد فاصل کھینچی
کتنے چہرے انہی آنکھوں نے اترتے دیکھے
زندگی سے کوئی سمجھوتہ بہت ممکن تھا
مڑ کے دیکھا تو سبھی فیصلے مرتے دیکھے
میری آنکھوں سے ہے شکوہ تو وہ آئینہ اٹھائے
اور آئینوں کو سرگوشیاں کرتے دیکھے
کس کے گھر آئے تھے کہہ دوں تو بڑائی ہو گی
ورنہ انوار تو لوگوں نے اترتے دیکھے
تاج مہجور
تاج الدین احمد
No comments:
Post a Comment