Saturday, 29 November 2025

سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے

 سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے

کوئی رستہ دکھانے لگ گیا ہے

مراسم ختم ہوتا ہی سمجھیے

وہ کچھ نزدیک آنے لگ گیا ہے

تیرے غم نے بڑی چارہ گری کی

ہمارا غم ٹھکانے لگ گیا ہے

لہر دہلیز پر آئی ہے جب سے

سمندر خوف کھانے لگ گیا ہے

بہت دن ہو گئے بچھڑے ہوئے اب

مجھے وہ یاد آنے لگ گیا ہے

سفر تاریکیوں کا کر رہی ہوں

اجالا بوکھلانے لگ گیا ہے

یہ کوئی معجزہ ہے ہجر کا ہی

تو مجھ میں بڑبڑانے لگ گیا ہے


پونم یادو

No comments:

Post a Comment