Monday, 17 November 2025

غیر سے ہوتی ہو تکرار تیری بزم میں

 غیر سے ہوتی ہو تکرار تیری بزم میں

تاؤ دیں گے مُونچھ کو سو بار تیری بزم میں

یوں ہی منہ آتے رہے یہ لوگ تو اے جان جاں

ہم کہیں پھڑکا نہ دیں دو چار تیری بزم میں

رنج ہے، رسوائیاں ہیں ، طعن ہے تعریض ہے

باندھ  لائے ہیں یہ سب طُومار تیری بزم میں

سرد آہوں کی فراوانی سے قلفی جم گئی

آتش دل بھی ہے  ٹھنڈی ٹھار تیری بزم میں

چار سُو عاشق ہی عاشق، تھُوکنے کی جا نہیں

اور رکھ بیٹھے ہیں ہم نسوار تیری بزم میں       


بشیر جعفر

No comments:

Post a Comment