غیر سے ہوتی ہو تکرار تیری بزم میں
تاؤ دیں گے مُونچھ کو سو بار تیری بزم میں
یوں ہی منہ آتے رہے یہ لوگ تو اے جان جاں
ہم کہیں پھڑکا نہ دیں دو چار تیری بزم میں
رنج ہے، رسوائیاں ہیں ، طعن ہے تعریض ہے
باندھ لائے ہیں یہ سب طُومار تیری بزم میں
سرد آہوں کی فراوانی سے قلفی جم گئی
آتش دل بھی ہے ٹھنڈی ٹھار تیری بزم میں
چار سُو عاشق ہی عاشق، تھُوکنے کی جا نہیں
اور رکھ بیٹھے ہیں ہم نسوار تیری بزم میں
بشیر جعفر
No comments:
Post a Comment