سنبھلا کی زندگی ہی سنبھلنے کا نام ہے
دکھ درد سے مقابلہ انساں کا کام ہے
راتوں کو گھومنا وہ بڑی دور میرے سات
وہ چاندنی وہ کھیت وہ دل کی ہر ایک بات
وہ درد و حزن و سوز کے پیکر کی داستاں
احساسِ رنج و غم کی سسکتی کہانیاں
کشمیر ایک ماہ جو گزرا تھا میرے ساتھ
ہم تھامتے تھے موت کو ہاتھوں میں دے کے ہاتھ
اک روز جبرِ زیست کی دیوار پھاند کر
اک ظلمتِ بسیط میں گم ہو گیا مگر
روشن ہے اس کی زیست محبت کی آگ سے
یہ راگ جا ملا ابدیت کے راگ سے
صدیق کلیم
عزیز دوست ولی محمد برق کی وفات پر کہا گیا نوحہ
No comments:
Post a Comment