Wednesday, 26 November 2025

سنبھلا کی زندگی ہی سنبھلنے کا نام ہے

 سنبھلا کی زندگی ہی سنبھلنے کا نام ہے

دکھ درد سے مقابلہ انساں کا کام ہے

راتوں کو گھومنا وہ بڑی دور میرے سات

وہ چاندنی وہ کھیت وہ دل کی ہر ایک بات

وہ درد و حزن و سوز کے پیکر کی داستاں

احساسِ رنج و غم کی سسکتی کہانیاں

کشمیر ایک ماہ جو گزرا تھا میرے ساتھ

ہم تھامتے تھے موت کو ہاتھوں میں دے کے ہاتھ

اک روز جبرِ زیست کی دیوار پھاند کر

اک ظلمتِ بسیط میں گم ہو گیا مگر

روشن ہے اس کی زیست محبت کی آگ سے

یہ راگ جا ملا ابدیت کے راگ سے


صدیق کلیم

عزیز دوست ولی محمد برق کی وفات پر کہا گیا نوحہ

No comments:

Post a Comment