خیرات طلب خاک بہ سر خاک نشیں ہیں
ہم ایک زمانے سے تیرے غم کے امین ہیں
دنیا کے تقاضے جو نبھائیں تو کہاں تک
ہم لوگ ادھورے ہیں، مکمل تو نہیں ہیں
تُو نے کبھی پوچھا ہی نہیں حال ہمارا
مُدت سے تِرے شہر میں اے دوست مکیں ہیں
ہم خانہ بدوشوں کا مقدر ہی سفر ہے
ہم لوگ کسی بھی تو ٹھکانے کے نہیں ہیں
تم خاک تو صدیوں کی ذرا جھاڑ کے دیکھو
اس ایک ہی تصویر میں ہم دونوں کہیں ہیں
علی عمار کاظمی
No comments:
Post a Comment