Saturday, 15 November 2025

شناسا جس کو سمجھے تھے وہی نا آشنا نکلا

 شناسا جس کو سمجھے تھے وہی نا آشنا نکلا

وہ کیسا یار تھا جو یار بن کر بے وفا نکلا

بھٹکتا چھوڑ آئے تھے جسے ہم دور صحرا میں

ہزاروں قافلوں کے درمیاں وہ قافلہ نکلا

الٹ کر جب بھی دیکھی ہے کتاب زندگی ہم نے

تو ہر اک لفظ کے پیچھے کوئی اک حادثہ نکلا

بہت کچھ ناز تھا ہم کو مگر اب کیا کہیں یارو

ہجوم دوستاں میں وہ اکیلا بے وفا نکلا

کہ اپنے دکھ بھرے نغمے تمہیں کیسے سنا پاتے

ہمارے ہاتھ جو بھی ساز آیا بے صدا نکلا


عبدالمنان صمدی

No comments:

Post a Comment