شناسا جس کو سمجھے تھے وہی نا آشنا نکلا
وہ کیسا یار تھا جو یار بن کر بے وفا نکلا
بھٹکتا چھوڑ آئے تھے جسے ہم دور صحرا میں
ہزاروں قافلوں کے درمیاں وہ قافلہ نکلا
الٹ کر جب بھی دیکھی ہے کتاب زندگی ہم نے
تو ہر اک لفظ کے پیچھے کوئی اک حادثہ نکلا
بہت کچھ ناز تھا ہم کو مگر اب کیا کہیں یارو
ہجوم دوستاں میں وہ اکیلا بے وفا نکلا
کہ اپنے دکھ بھرے نغمے تمہیں کیسے سنا پاتے
ہمارے ہاتھ جو بھی ساز آیا بے صدا نکلا
عبدالمنان صمدی
No comments:
Post a Comment