بجھ چکی آگ مگر اب بھی جلن باقی ہے
میری آنکھوں میں شب غم کی چبھن باقی ہے
کانچ کے ظرف ضروری نہیں پینے کے لیے
اب بھی مٹی کے پیالوں کا چلن باقی ہے
ہونے والا ہے شب غم کا سویرا لیکن
اب بھی آنکھوں میں اندھیروں کی گھٹن باقی ہے
کب فصیلوں نے ہواؤں کے سفر کو روکا
پھر بھی دیوار کا زنداں میں چلن باقی ہے
کتنے آرام سے سوتا ہے سفر کر کے مگر
قبر کہتی ہے مسافر کی تھکن باقی ہے
لٹ گئی اپنے اثاثے کی ہر اک شے لیکن
بس بزرگوں کی دعاؤں سے وطن باقی ہے
رات کٹ جائے گی آثار نہیں ہیں کوثر
پھر بھی امید کی ہلکی سی کرن باقی ہے
کوثر صدیقی
No comments:
Post a Comment