Friday, 28 November 2025

بجھ چکی آگ مگر اب بھی جلن باقی ہے

 بجھ چکی آگ مگر اب بھی جلن باقی ہے

میری آنکھوں میں شب غم کی چبھن باقی ہے

کانچ کے ظرف ضروری نہیں پینے کے لیے

اب بھی مٹی کے پیالوں کا چلن باقی ہے

ہونے والا ہے شب غم کا سویرا لیکن

اب بھی آنکھوں میں اندھیروں کی گھٹن باقی ہے

کب فصیلوں نے ہواؤں کے سفر کو روکا

پھر بھی دیوار کا زنداں میں چلن باقی ہے

کتنے آرام سے سوتا ہے سفر کر کے مگر

قبر کہتی ہے مسافر کی تھکن باقی ہے

لٹ گئی اپنے اثاثے کی ہر اک شے لیکن

بس بزرگوں کی دعاؤں سے وطن باقی ہے

رات کٹ جائے گی آثار نہیں ہیں کوثر

پھر بھی امید کی ہلکی سی کرن باقی ہے


کوثر صدیقی

No comments:

Post a Comment