قرار جاں نہیں ہیں ہم سکون دل نہیں ہیں ہم
کہ شمعِ انجمن ہیں، صاحبِ محفل نہیں ہیں ہم
جہاں میں روشنی ہے آج کل جھوٹے نگینوں کی
کمالِ نقص یہ ہے ناقصِ کامل نہیں ہیں ہم
یہ قہر آلود نظریں کیوں؟ سوالِ چشمِ اُلفت پر
تمہارے شہر میں مہمان ہیں سائل نہیں ہیں ہم
یہ کیا کم ہے وہ اپنے جور کے قابل سمجھتے ہیں
یہ مانا ان کے لُطفِ خاص کے قابل نہیں ہیں ہم
ہمیں کیوں تک رہا ہے کاروانِ دردِ محرومی
چراغِ رہ گزر ہیں، شعلۂ منزل نہیں ہیں ہم
خدا معلوم طوفانوں میں اس کشتی کا کیا ہو گا
امانت دارِ ساحل ہیں مگر ساحل نہیں ہیں ہم
نظر ہر جلوۂ نوبت تک جو بڑھتی جاتی ہے
سکونِ درد و کیفِ عشق کے قابل نہیں ہیں ہم
نظر حیدرآبادی
حامد اختر
No comments:
Post a Comment