چڑھا جو چاند ستاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
کلی کھلی تو بہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
حضورِ دوست تکلم کی آرزو تھی، مگر
ملی نظر تو خیالوں نے ساتھ چھوڑ دیا
سفینہ لے کے چلے بادبان لہروں پر
بھنور میں جا کے سہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
بھروسہ ہو گیا جب اپنے دست و بازو پر
تو پھر ہمارا کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا
ابھی تو آنا تھا سمتوں کے فیصلے کا مقام
یہ کیسے موڑ پہ یاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
کنیز فاطمہ کرن
No comments:
Post a Comment