کسی کے ہجر میں یہ محوِ یاس لگتی ہے
گزرتے سال کی شامیں اداس لگتی ہے
مِرے طواف میں مصروف ہیں کئی دن سے
یہ ساعتیں تو مِری غم شناس لگتی ہے
کہ اب تو کی گھٹن کا کوئی علاج نہیں
کہ اب تو دھڑکنیں صحرا کی پیاس لگتی ہے
میں جب بھی دیکھتی ہوں غور سے نجانے کیوں
چمن میں کلیاں سبھی بے لباس لگتی ہے
تمہارے قرب میں گزریں تھیں جس قدر گھڑیاں
وہ اب بھی دل کے کہیں آس پاس لگتی ہے
یہ کیسا خوف سا پھیلا ہے ہر طرف شبنم
کہ دن ہیں سہمے سے، راتیں اداس لگتی ہے
شبنم مرزا
No comments:
Post a Comment