کعبے میں جی لگا نہ مِرا لاکھ سیر کی
آنکھوں میں پھر رہی ہے وہی شکل دَیر کی
بگڑے تھے مجھ سے چل گئی تھی چال غیر کی
پھر کچھ سمجھ کے رہ گئے خالق نے خیر کی
ہم نشے کی ترنگ میں پہونچے کہاں کہاں
دو ایک جام پی کے زمانے کی سیر کی
اپنا بھلا نہ ہو تو کسی کا نہ ہو یہ کیا
یہ کیوں کہوں امید نہ بر آئے غیر کی
فیاضیوں میں نام ہے ساقی کا کس قدر
سچ ہے کہ بات اور ہی ہے کارِ خیر کی
ان مہ وشوں میں نام کو بُوئے وفا نہیں
باغِ جہاں میں خوب پھرے، خوب سیر کی
پہونچے جو لکھنؤ میں فہیم اب کے بار ہم
دیکھا ہر اک مقام غرض خوب سیر کی
فہیم گورکھپوری
No comments:
Post a Comment