خوابوں کا سیلاب نہیں دیکھا جاتا
نیند نگر غرقاب نہیں دیکھا جاتا
جانے والے میری آنکھیں بھی لے جا
ان کو یوں بیتاب نہیں دیکھا جاتا
اتنا کہہ کر ایک شناور ڈوب گیا
افسردہ گرداب نہیں دیکھا جاتا
جانے اس کا چہرہ کیسے دیکھیں گے
جس کا نور نقاب نہیں دیکھا جاتا
ہم نے سارا گلشن جلتے دیکھا ہے
تم سے ایک گلاب نہیں دیکھا جاتا
امتیاز احمد خان
No comments:
Post a Comment