Friday, 28 November 2025

خوابوں کا سیلاب نہیں دیکھا جاتا

 خوابوں کا سیلاب نہیں دیکھا جاتا

نیند نگر غرقاب نہیں دیکھا جاتا

جانے والے میری آنکھیں بھی لے جا

ان کو یوں بیتاب نہیں دیکھا جاتا

اتنا کہہ کر ایک شناور ڈوب گیا

افسردہ گرداب نہیں دیکھا جاتا

جانے اس کا چہرہ کیسے دیکھیں گے

جس کا نور نقاب نہیں دیکھا جاتا

ہم نے سارا گلشن جلتے دیکھا ہے

تم سے ایک گلاب نہیں دیکھا جاتا


امتیاز احمد خان

No comments:

Post a Comment