Thursday, 20 November 2025

لوٹتے وقت کی بے کیف تھکن کو بھولیں

 لوٹتے وقت کی بے کیف تھکن کو بھولیں

کس کے گھر جائیں کہ اس وعدہ شکن کو بھولیں

سہمی آنکھوں کے سوالوں کی تپن یاد رکھیں

تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں کی کپن کو بھولیں

گرم سانسوں کی جلن سرد سی آہوں کی تپن

کیسے ممکن ہے کہ اس شعلہ بدن کو بھولیں

شعر کہنے ہی نہیں دیتی ہیں یادیں تیری

تجھ کو بھولیں تو یہ ایسا ہے کہ فن کو بھولیں

ہم وفا کیش ہیں میرے دل 💓 اندیشہ شناس

اک تِرے خوف سے کیا اپنے چلن کو بھولیں

مسکراتے ہی جہاں پھول کھلے جاتے ہوں

مرنا بہتر ہے جو اس شوخ بدن کو بھولیں


وسیم فرحت علیگ

No comments:

Post a Comment