Monday, 10 November 2025

مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا

 مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا

ظلم کرتا تھا مگر ظالم کو پیار آ ہی گیا

ہجر کی راتیں کٹیں تارے گنے جاگا کئے

وصل کے لمحے ملے آخر قرار آ ہی گیا

وہم تھے میری طرف سے بد گمانی تھی انہیں

میری فطرت دیکھ کے اب اعتبار آ ہی گیا

میں نے مانا عارضی ہیں وصل کی گھڑیاں مگر

چند لمحوں کے لئے دور بہار آ ہی گیا

ہم کو پینے سے غرض کیا یہ شراب ظاہری

ان کی نظریں جب اٹھیں مجھ کو خمار آ ہی گیا

اے نظامی! دفعتاً ان کی نگاہیں اٹھ گئیں

پیار وہ کرتے نہ تھے بے اختیار آ ہی گیا


صدیق احمد نظامی بچھرایونی

No comments:

Post a Comment