آخری خط
اے میری جاں گِلے شکوے تو ساری عمر رہتے ہیں
مِرا آداب جو تم تک پہنچ جائے، خوشی ہو گی
تمہیں معلوم ہے
آداب تم کو کس لیے لکھا
کہ دو رشتے جب آپس میں کبھی دامن چھڑاتے ہیں
تو پھر اس کے سبب ہی فاصلوں کے خار اُگتے ہیں
ہمارے درمیاں یہ فاصلے اچھے نہیں لگتے
تمہاری اک نہیں نے میرے دل کو توڑ ڈالا ہے
خدا کا شکر ہے پھر بھی ابھی تک ہوش باقی ہے
کسی کا چھوڑ کر جانا کسی کو توڑ دیتا ہے
مگر اے جاں
کسی کے جانے پر رونا
یا پھر کھانا نہیں کھانا
یہ سب تو بے وقوفی ہے
مجھے ایسا نہیں کرنا
میں تم سے عشق کرتا ہوں
میں بس تم پہ ہی مرتا ہوں
مگر میں جانتا ہوں جان
میری آنکھوں کے سارے خواب سچے ہو نہیں سکتے
مگر ان سارے خوابوں میں
تمہارے واسطے دیکھے گئے سب خواب پورے ہوں
تو میری جاں
میں سمجھوں گا
کہ تم کو پا لیا میں نے
مجھے شاید یہ لگتا ہے
کہ میں نے بس یہ غلطی کی
کہ تم کو زندگی مانا
تمہیں کو جان سمجھا ہے
مگر پھر بھی
تمہارے لوٹ کر آنے کی اب بھی آس باقی ہے
اگر تم کو کبھی کوئی
جہاں میں آزمائے تو
کوئی اپنا ستائے تو
کوئی گر وعدے کو توڑے
کوئی گر روٹھ جائے تو
جو میری یاد آئے تو
مجھے اک کال کر لینا
مجھے بس کال کر لینا
عبید نجیب آبادی
No comments:
Post a Comment