زندگی ہے حرص یہ سب عرصۂ پیکار حرص
حرص ہے دنیا کی ہر شے اور کاروبار حرص
جنگ و شورش پر جو آمادہ یہاں اقوام ہیں
ان میں جلوہ گر ہوس ہے اور ہے بیدار حرص
ان کو لے ڈوبے گا اک دن جذبۂ حرص و ہوس
خود غرض قوموں کو ہے سرمایۂ ادبار حرص
جن کے کشکولِ سیاست میں بھرا ہو افتراق
ان کو اکساتی ہے شورش پر یہاں ہر بار حرص
حرص کا جذبہ ہی کر دیتا ہے قوموں کو تباہ
سینۂ ہستی پہ ہے گویا بڑا اک بار حرص
آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا کسی کو یہ جنوں
شورشیں زحمت کا باعث، درپئے آزار حرص
زندگی کی راہ میں پھر وہ نہیں پاتیں عروج
جب کبھی قوموں میں ہوتا ہے علمبردار حرص
ہر طرف آتی ہے دنیا میں نظر آگ و خون
گر کبھی دنیا میں ہو جاتی ہے شعلہ بار حرص
اپنے بندوں کو گرانا حرص کا ہے کام خاص
ہیں گرفتارِ مصائب اس کے ہاتھوں عام خاص
محمد صادق ضیا
No comments:
Post a Comment