Sunday, 30 November 2025

آخری شب ماہ آخر کی ہوئی رخصت

 تھرٹی فرسٹ


گزشتہ رات

یعنی

آخری شب ماہِ آخر کی

ہوئی رخصت

لیے آنکھوں میں آنسو شرمساری کے

کہ اُس اک آخری شب میں

نئے مہینوں کی آمد پہ

نہ جانے کتنے مے خانے

لگائے قہقہے شب بھر

نجانے کتنے گُلدستے

انھیں بہلائے یہ کہہ کر

کہ سالِ نو کی آمد ہے

اور یہ آخری شب ہے

تو اس اک آخری پَل میں

ذرا تو الفتیں بانٹو

جنہیں تم ساتھ لائے ہو

مزے سے عصمتیں لوٹو

کہ سرکاؤ نقاب اُن کے

ہاں بھڑکاؤ شباب اُن کے

پرانے سال کی رخصت

اور نو سال کی آمد کے تحفے میں

بدن بانٹو

بدن چاٹو

بدن کے تیز سگریٹ میں

ہوس کی آگ بھڑکاؤ

نہ گھبراؤ، نہ شرماؤ

سرود و رقص کی محفل

سجی ہے اک زمانے بعد

سجے گی اک زمانے بعد

تو ایسے میں بدن کی سرحدوں کو پار کر جاؤ

اور لوگو

اسی نو سال کے پہلے ہی دن

افسوس کی خبریں

بدستِ نامہ بر پہنچیں

کہ جشنِ سالِ نو کی شب

نہ جانے کتنی دوشیزہ

پھٹے کپڑوں میں گھر پہنچیں


کوثر تسنیم سپولی

No comments:

Post a Comment