تجھ کو چاہا ہے بہت کچھ تو صلہ دے مجھ کو
زندگی اور نہ جینے کی سزا دے مجھ کو
رات دن کیسے تڑپتا تھا، تجھ یاد بھی ہے؟
میں ہی قاتل ہوں تِرا دل کہ دعا دے مجھ کو
یوں جگاتا ہے تِری یاد کا جھونکا اکثر
خواب میں آ کے کوئی جیسے ہلا دے مجھ کو
آئینے میں ہے فقط میری مزاحم صورت
راہ سے میری کوئی آ کے ہٹا دے مجھ کو
ایک جھونکا سا گزر جائے ہے جب بھی پلٹوں
آشنا لہجہ کوئی جیسے صدا دے مجھ کو
ذکر پھر چھیڑ شفیق اس کا کہ بے چین ہے دل
مثلِ گُل ایسی اداسی میں کِھلا دے مجھ کو
سید شفیق عباس
No comments:
Post a Comment