Thursday, 27 November 2025

یہ خیمہ موت کا خیمہ کے نام سے جانا جاتا ہے

 موت کا خیمہ


سرِ عام

بے قبلہ خیمے میں

بال کھول کر

تم  ناچنا شروع کرتیں

تو آنکھ نہ ملاتیں

ممنوع تھا تمہارا 

نامحرم کو دیکھنا

انہیں چھو کے گزرنا

تمہارے مرد نے منع کیا تھا

تم ناچتی جاتیں تو

تمہاری پائل کی آواز تیز ہوتی جاتی

اتنی کہ پوری بستی کے قبرستانوں میں گونجنے لگتی

اور ہر لاش اپنے کان پہ ہاتھ رکھ لیتی

یوں چھن چھن کی آواز 

ان کے اندر سرائیت کرنے لگتی

اور وہ اس میں مدہوش ہو جاتے

اپنے کان کھول دیتے

ان کے قلب کو آزاد پا کر

ان کے شکنجے سے دل چوری ہو جاتے

اور پھر اسی بازار کے خیمے میں فروخت ہوتے

جہاں تم ناچتی ہو

جہاں پیسوں کا نام لینا منع تھا

یہ خیمہ "موت کا خیمہ" کے نام سے جانا جاتا ہے

جس میں زندگی ملنے والے کی موت ہو جاتی

پھر اس کے اعضاء کی بولی لگتی

پھیپڑے کی ہر ہڈی کے دام الگ لگتے

جہاں سب ننگے پاؤں آتے

اور جو بے لباس ہوتا

اسے زیادہ  معاوضہ ملتا

جہاں سلگتے جسموں کو

پھولوں سے سنوارا نہیں جاتا

کیونکہ ان پہ مستعمل ہونے کا نشان موجود ہوتا ہے

جہاں ہیرے کے دام کم  

اور دل کے زیادہ ہوتے

کہ اس کا وزن زیادہ ہوتا ہے

بے رنگ نہیں ہوتا

تم نہیں جانتی 

کہ میں جانتی ہوں

تمہیں تمہارے مرد

اور اس کے دھندے کو

میں اس سے کبھی ملی نہیں

مجھے نہیں پتہ وہ کیسا دکھتا ہے

پر میں جانتی ہوں 

کہ اس کی سانولی رنگت 

پھیکی مسکراہٹ

ترچھی ناک

مینڈک سی موٹی آنکھیں

بکھرے بال ہیں

جو کبھی سنوارے نہیں گئے

اس کے چہرے کو مزید بدصورت بناتے ہیں

جیسے مصور نے کم پیسوں میں ایک بڑا آرڈر تیار کیا ہو

میں جانتی ہوں

وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ

سانس لے کر

اسے چھوڑنا کیوں ضروری ہے

اسے لفظ ادا کرنا تکلیف دیتے ہیں

اسے ملنا پسند نہیں

اس کے ہونٹوں پہ خشکی کی سطح جمی رہتی ہے

اس کی آواز میں وحشت ہے

اور تم اسے سن کے

ہمیشہ سہم جاتی ہو

ہمارے بائیں ہاتھ میں ایک لکیر اضافی ہے

جو اسے دائیں ہاتھ سے جوڑتی ہے

یوں کہو کہ یہ ہمیں ورثے میں ملی ہے


کرن رباب

No comments:

Post a Comment