کروں بیان اگر اس کی بے وفائی کا
زباں سے نام نہ لے کوئی آشنائی کا
نہ عشوہ سازی نہ غمزے نہ ناز پھولوں میں
ہے سادہ حسن میں انداز دلربائی کا
بدن سے جان نکلتی ہے یہ خبر دے کر
کبھی ہے وصل کا موسم کبھی جدائی کا
ہوا ہلاک جو ہابیل تو کیا کس نے
شروع دہر سے قاتل ہے بھائی بھائی کا
حباب سطح پہ آتے ہی پھوٹ جاتے ہیں
جگر خراش ہے انجام خود نمائی کا
جہاں میں کوئی کسی کی خبر نہیں لیتا
سناؤں حال کسے اپنی بے نوائی کا
دکھا کے آئینہ کہہ دو کہ میں مقابل بھی
بتوں کے منہ سے ہو دعویٰ اگر خدائی کا
برتر مدراسی
محمد عبدالمناف برتر
No comments:
Post a Comment