Monday, 24 November 2025

کروں بیان اگر اس کی بے وفائی کا

 کروں بیان اگر اس کی بے وفائی کا

زباں سے نام نہ لے کوئی آشنائی کا

نہ عشوہ سازی نہ غمزے نہ ناز پھولوں میں

ہے سادہ حسن میں انداز دلربائی کا

بدن سے جان نکلتی ہے یہ خبر دے کر

کبھی ہے وصل کا موسم کبھی جدائی کا

ہوا ہلاک جو ہابیل تو کیا کس نے

شروع دہر سے قاتل ہے بھائی بھائی کا

حباب سطح پہ آتے ہی پھوٹ جاتے ہیں

جگر خراش ہے انجام خود نمائی کا

جہاں میں کوئی کسی کی خبر نہیں لیتا

سناؤں حال کسے اپنی بے نوائی کا

دکھا کے آئینہ کہہ دو کہ میں مقابل بھی

بتوں کے منہ سے ہو دعویٰ اگر خدائی کا


برتر مدراسی

محمد عبدالمناف برتر

No comments:

Post a Comment