اک زہرِ ہلاہل تھا جسے میں نے پیا ہے
مظلوم تھے وہ لمحے جنہیں قتل کیا ہے
میں رہ نہ سکا راہِ سفر میں کبھی تنہا
جو مجھ کو مِلا میں نے اسے ساتھ لیا ہے
آنے سے تِرے آج مِلی قُرب کی لذّت
اک ساغرِ رنگیں تِری آنکھوں سے پیا ہے
کیوں کاسۂ دریوزہ گری لے کے پھروں میں
رزّاقِ جہاں نے مجھے سب کچھ تو دیا ہے
یہ دل کی وہ منزل ہے جہاں نورِ خِرد بھی
اک سرد سا بُجھتا ہوا خاموش دِیا ہے
ہونٹوں پہ زمانے کی شکایت نہیں آتی
جب سے تِرا بدلا ہوا رُخ دیکھ لیا ہے
میں موم کی مانند پگھلتا ہی گیا ہوں
جب سے تِرا شعلہ بدن دیکھ لیا ہے
کرشن مراری سہگل
No comments:
Post a Comment