رہے گا کب تک یہ رقص بے جان پتھروں پر
کوئی گِرائے عمود حیرت کے دائروں پر
مِرے لیے عرش پر کوئی جال بُن رہا ہے
بہت سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں مِرے پروں پر
کھلی ہوئی کھڑکیوں سے رستے لٹک رہے تھے
ہمارے پہرے کہ بس جمے رہ گئے دروں پر
ابھی تو پایاب ہے تمہارا چناب پانی
سو پھر رہے ہیں اٹھا کے ہم کشتیاں سروں پر
گزر چکے ہیں ہزار ہا قافلے یہاں سے
سو دیکھیے کیا، ہے گرد ہی گرد منظروں پر
انیم تہذیب گنگ غاروں سے کیسے نکلے
یقین رکھتے ہیں دشت والے ابھی گھروں پر
ابو طالب انیم
No comments:
Post a Comment