بوڑھے برگد کی صدا
تمہیں یاد ہو شاید
بدلتی رتوں کے درمیاں
جب خزاں کے ماتھے پہ ابھرتی سلیٹی سلوٹیں
اور بھی گہری ہوئی تھیں
بہار کے ناز سے بڑھتے قدم
انجانے خطرے کی بو سونگھ کر
اچانک تھم سے گئے تھے
بدلتی رتوں کے سوالیہ چہرے
درمیاں کسی تیسرے موسم کو دیکھ کر
زرد سے پڑے تھے
حویلی کے دیوانوں سے سرد خانوں تک
بکھرے سناٹوں کا دامن بھرتا
ان دیکھی برف کا موسم
تمہیں یاد ہو شاید
تیز تیز قدموں سے
جب تم آگے بڑھے تھے
میری آواز نے
آخری موڑ تک تعاقب کیا تھا
مگر تم نے کب سنا تھا
شام سے پہلے
تمہیں جلدی تھی گھر پلٹ جانے کی
جلدی بھی ایسی کہ
اک نظر بھی تم نے
مجھ کو دیکھا نہیں
ساری رونق سمیٹ کر ڈالیوں سے
تم یکا یک یوں چل دئیے تھے کہ
نہ حرفِ تسلی
نہ کوئی دلاسہ
نہ پلٹنے کی بات
نہ ملنے کا کوئی وعدہ
میری طرح
یہ سنسان رستہ بھی
تیری دید کو ترستا ہے
بطخوں کے ٹوٹے پَر
اور یہ بد رنگ بینچ
جب جب تیری بات ہو
مجھ پہ یونہی بگڑتا ہے
کئی کئی رنگ بدلتا ہے
نجانے کیوں الجھتا ہے
تمہیں شاید خبر ہو
آسمانوں سے اب ہجر برستا ہے
جب سے شہر والوں کے دروازے بند ہوئے
ہوا بند کھڑکیوں سے سر ٹکراتی ہے
میری بے کل دوپہروں کے پیغام لاتی ہے
مگر خوف کو گلیوں میں قابض دیکھ کر
تمہاری منڈیر پہ جلتے دیے کی ہتھیلی پر
سارے سندیسے رکھ کر لوٹ جاتی ہے
سنو مجھے یقین سا ہے کہ
جس پل میرا خط
تمہاری دہلیز چومے گا
مسافر موت کا موسم گزر چکا ہو گا
کونپلوں کے پھوٹنے سے پہلے
عفریت رستہ بھول جائے گی
پورے عزم سے بہارِ صد رنگ
صحن گل میں محفل جمائے گی
آم کے پیڑوں پہ بور آتے ہی
جہاں بھی ہے
کوئل رخ موڑ آئے گی
آدھے مہینے کا پورا چاند
چکور اور مور بھی
اک اک کر کے آتے جائیں گے
بس اس سارے منظر میں رنگ بھرنے کو
جنگل میں منگل کرنے کو
تم بھی باغ میں چلے آنا
سنو رونقِ جہاں
سنو آخری سطر پڑھتے ہی
تم چلے آنا
واللہ پتا پتا فریاد کرتا ہے
بوڑھا برگد تمہیں یاد کرتا ہے
سیدہ آیت گیلانی
No comments:
Post a Comment