Sunday, 9 November 2025

بوڑھا برگد تمہیں یاد کرتا ہے

 بوڑھے برگد کی صدا


تمہیں یاد ہو شاید

بدلتی رتوں کے درمیاں

جب خزاں کے ماتھے پہ ابھرتی سلیٹی سلوٹیں

اور بھی گہری ہوئی تھیں

بہار کے ناز سے بڑھتے قدم 

انجانے خطرے کی بو سونگھ کر 

اچانک تھم سے گئے تھے 

بدلتی رتوں کے سوالیہ چہرے

درمیاں کسی تیسرے موسم کو دیکھ کر

زرد سے پڑے تھے

حویلی کے دیوانوں سے سرد خانوں تک

بکھرے سناٹوں کا دامن بھرتا 

ان دیکھی برف کا موسم

تمہیں یاد ہو شاید

تیز تیز قدموں سے

جب تم آگے بڑھے تھے 

میری آواز نے 

آخری موڑ تک تعاقب کیا تھا 

مگر تم نے کب سنا تھا 

شام سے پہلے 

تمہیں جلدی تھی گھر پلٹ جانے کی

جلدی بھی ایسی کہ

اک نظر بھی تم نے 

مجھ کو دیکھا نہیں

ساری رونق سمیٹ کر ڈالیوں سے 

تم یکا یک یوں چل دئیے تھے کہ

نہ حرفِ تسلی

نہ کوئی دلاسہ

نہ پلٹنے کی بات

نہ ملنے کا کوئی وعدہ 

میری طرح

یہ سنسان رستہ بھی

تیری دید کو ترستا ہے

بطخوں کے ٹوٹے پَر

اور یہ بد رنگ بینچ

جب جب تیری بات ہو 

مجھ پہ یونہی بگڑتا ہے 

کئی کئی رنگ بدلتا ہے

نجانے کیوں الجھتا ہے 

 تمہیں شاید خبر ہو

آسمانوں سے اب ہجر برستا ہے

جب سے شہر والوں کے دروازے بند ہوئے

ہوا بند کھڑکیوں سے سر ٹکراتی ہے 

میری بے کل دوپہروں کے پیغام لاتی ہے 

مگر خوف کو  گلیوں میں قابض دیکھ کر 

تمہاری منڈیر پہ جلتے دیے کی ہتھیلی پر

سارے سندیسے رکھ کر لوٹ جاتی ہے

سنو مجھے یقین  سا ہے کہ

جس پل میرا خط 

تمہاری دہلیز چومے گا

مسافر موت کا موسم گزر چکا ہو گا

کونپلوں کے پھوٹنے سے پہلے

عفریت رستہ بھول جائے گی

پورے عزم سے بہارِ صد رنگ

صحن گل میں محفل جمائے گی

آم کے پیڑوں پہ بور آتے ہی

جہاں بھی ہے 

کوئل رخ موڑ آئے گی

آدھے مہینے کا پورا چاند

چکور اور  مور بھی 

اک اک کر کے آتے جائیں گے 

بس اس سارے منظر میں رنگ بھرنے کو 

جنگل میں منگل کرنے کو 

تم بھی باغ میں چلے آنا 

 سنو رونقِ جہاں

سنو آخری سطر پڑھتے ہی 

تم چلے آنا

واللہ پتا پتا فریاد کرتا ہے

بوڑھا برگد تمہیں یاد کرتا ہے


سیدہ آیت گیلانی

No comments:

Post a Comment