جس کو اپنا جگری یار سمجھتے تھے
کیا نکلا وہ کیا سرکار سمجھتے تھے
پتا نہیں تھا ہوش اڑا دے گا اک دن
سب جس کو ذہنی بیمار سمجھتے تھے
پوچھ رہے ہیں ہم سے پیروں کے چھالے
کیا سچ کا رستہ ہموار سمجھتے تھے
ڈھونڈ رہے ہیں اس کو گھر کی ردّی میں
جس کاغذ کو ہم بے کار سمجھتے تھے
مجھ سے رشتہ توڑ کے جانے والے لوگ
بھوک سے مرتا ہے فنکار سمجھتے تھے
سب سے پہلے ان لوگوں پر کام کیا
جن کو رستے کی دیوار سمجھتے تھے
رازق انصاری
No comments:
Post a Comment