وفا میں برابر جسے تول لیں گے
اسے سلطنت بیچ کر مول لیں گے
اجازت اگر سر پٹکنے کی ہو گی
مقفل در یار ہم کھول لیں گے
کسی دن جو پلٹا مقدر ہمارا
بکے جس کے ہاتھوں اسے مول لیں گے
ہمیں باغ جانے سے یہ مدعا ہے
ذرا بلبل و گل سے ہنس بول لیں گے
بدن کیوں چھپاتے ہو زیور پہن کر
جواہر کے اکے نہ ہم کھول لیں گے
ابھی ہم سے اور ان سے صحبت نئی ہے
جو منہ لگ چلیں گے تو ہنس بول لیں گے
غم یار بھی ابر نیساں ہے اے بحر
جو ٹپکیں گے آنسو گہر رول لیں گے
امداد علی بحر
No comments:
Post a Comment