Sunday, 30 November 2025

وفا میں برابر جسے تول لیں گے

 وفا میں برابر جسے تول لیں گے

اسے سلطنت بیچ کر مول لیں گے

اجازت اگر سر پٹکنے کی ہو گی

مقفل در یار ہم کھول لیں گے

کسی دن جو پلٹا مقدر ہمارا

بکے جس کے ہاتھوں اسے مول لیں گے

ہمیں باغ جانے سے یہ مدعا ہے

ذرا بلبل و گل سے ہنس بول لیں گے

بدن کیوں چھپاتے ہو زیور پہن کر

جواہر کے اکے نہ ہم کھول لیں گے

ابھی ہم سے اور ان سے صحبت نئی ہے

جو منہ لگ چلیں گے تو ہنس بول لیں گے

غم یار بھی ابر نیساں ہے اے بحر

جو ٹپکیں گے آنسو گہر رول لیں گے


امداد علی بحر

No comments:

Post a Comment