Saturday, 29 November 2025

ہوں میں تیرا تو بے رخی کیسی

 ہوں میں تیرا تو بے رخی کیسی

اے ستم گر یہ دِل لگی کسی

جلوۂ یار نہ نظر آئے

آنکھ میں پھر يہ روشنی کیسی

تھے جو اپنے وہی مخالف ہیں

دنیا دیکھو بدل گئی کیسی

دردِ دل جو سمجھ نہیں سکتے

ایسے لوگوں کو عاشقی کیسی

جلوہ مجھ کو نہیں دکھاتے ہو

پھر یہ اُلفت ہے آپ کی کیسی

تنگ حالی میں ساتھ چھوڑے جو

کام کی ہے وہ دوستی کیسی

بھوکا سوئے اگر پڑوسی کوئی

کام کی تیری بندگی کیسی

دینا ہو گا جواب محشر میں

تیری گزری ہے زندگی کیسی

ہم نے سیکھا ہے یار سے اسحاق

رکھنی ہے خود میں سادگی کیسی


محمد اسحاق رضوی

No comments:

Post a Comment