نہ چاہتے ہوئے بھی آشکار کرنا پڑا
زمیں کا راز سرِ رہگزار کرنا پڑا
پلٹ کے جاتے ہوئے مجھ کو دیکھنے والے
طویل عمر تِرا انتظار کرنا پڑا
سحر کے وقت چمکنا تھا اک ستارے نے
جبینِ صبح تجھے سوگوار کرنا پڑا
صدا کی طرح کوئی گونجتا رہا مجھ میں
سو اس کی سمت سفر اختیار کرنا پڑا
ستارگاں کا بھی رکھنا پڑا بھرم ہم کو
اداس شام! تجھے زرنگار کرنا پڑا
ہری ہوئی تھی وہ لَو مدتوں کے بعد کہیں
ہوا کے خوف سے جس کا شکار کرنا پڑا
ندی میں چار سُو پھیلی ہوئی تھی نیلاہٹ
چمکتے چاند کو پھر اندھکار کرنا پڑا
دیے جلائے گئے بے بسی کے ساتھ کرن
دمِ فراق ہمیں یادگار کرنا پڑا
کرن منتہیٰ
No comments:
Post a Comment