Wednesday, 19 November 2025

ساقی تھے کچھ رند یہاں کیا دیوانے مستانے سے

 ساقی تھے کچھ رند یہاں کیا دیوانے مستانے سے

دیکھ چلا وہ جام پٹک کر کون ترے میخانے سے

مست ہوئے سرشار ہوئے کیا کہیے کتنے خوار ہوئے

اب یاد ہے اتنا چھلکے تھے ان آنکھوں میں پیمانے سے

آنسو ہیں سو بہتے ہیں اور سہنے والے سہتے ہیں

کہنے والے کہتے ہیں یہ لوگ ہیں کچھ دیوانے سے

محفل محفل جو تھے اجالے گلشن گلشن جھومنے والے

بستی بستی پھرتے ہیں اب بے گانے بیگانے سے

جب سے دلِ زندہ نے چھوڑا احساسِ طلب ہے پژ مردہ

اب دشتِ جنوں کا ذکر ہے کیا خود شہر بھی ہیں ویرانے سے

بیگانۂ حسن شام و سحر کچھ میں ہی نہیں اے جانِ نظر

نظارے کی مہلت کس کو ملی آلام کے ظلمت خانے سے


نظر حیدرآبادی 

حامد اختر

No comments:

Post a Comment