ساقی تھے کچھ رند یہاں کیا دیوانے مستانے سے
دیکھ چلا وہ جام پٹک کر کون ترے میخانے سے
مست ہوئے سرشار ہوئے کیا کہیے کتنے خوار ہوئے
اب یاد ہے اتنا چھلکے تھے ان آنکھوں میں پیمانے سے
آنسو ہیں سو بہتے ہیں اور سہنے والے سہتے ہیں
کہنے والے کہتے ہیں یہ لوگ ہیں کچھ دیوانے سے
محفل محفل جو تھے اجالے گلشن گلشن جھومنے والے
بستی بستی پھرتے ہیں اب بے گانے بیگانے سے
جب سے دلِ زندہ نے چھوڑا احساسِ طلب ہے پژ مردہ
اب دشتِ جنوں کا ذکر ہے کیا خود شہر بھی ہیں ویرانے سے
بیگانۂ حسن شام و سحر کچھ میں ہی نہیں اے جانِ نظر
نظارے کی مہلت کس کو ملی آلام کے ظلمت خانے سے
نظر حیدرآبادی
حامد اختر
No comments:
Post a Comment