وفاؤں کے بدلے ستم دیکھتے ہیں
محبت کا اپنی بھرم دیکھتے ہیں
بڑے ان کے جاہ و حشم دیکھتے ہیں
یہ پتھر کے ہم جو صنم دیکھتے ہیں
رخِ یار پر یوں بکھرتی ہیں زلفیں
شب و روز دونوں بہم دیکھتے ہیں
مقدر ہے ان کا جو راہِ وفا میں
سدا ان کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں
مِرے دل میں اک قطرۂ خوں نہیں ہے
مگر آپ کب حالِ غم دیکھتے ہیں
تِری زلف کی پیچ و خم ہیں ستمگر
مقدر کے ہم پیچ و خم دیکھتے ہیں
مِرے بعد کیا ہو گا اہلِ محفل
ان آنکھوں میں اب اشکِ غم دیکھتے ہیں
لُٹا کوئی ہے، گھر جلا ہے کسی کا
ان آنکھوں سے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
صبوحی کو پینے درِ مے کدہ پر
تمہیں ہم بھی شیخِ حرم دیکھتے ہیں
تِری مست آنکھوں کی گردش میں ساقی
چھلکتا ہوا جامِ جم دیکھتے ہیں
جو انجام سے اپنے واقف ہیں اسلم
بہرحال خلد و ارم دیکھتے ہیں
اسلم بارہ بنکوی
محمد اسلم صدیقی
No comments:
Post a Comment