Saturday, 22 November 2025

تو گیا لیکن تری یادیں یہاں پر رہ گئیں

 تو گیا لیکن تری یادیں یہاں پر رہ گئیں

بعد تیرے بس تری باتیں زباں پر رہ گئیں

پہلے تیری ذات کا پیکر کہیں پر گم ہوا

اور نہ جانے پھر تری یادیں کہاں پر رہ گئیں

آج پھر ایسا ہوا جب سوچ کر تجھ کو اے دوست

آسماں تکتی نگاہیں، آسماں پر رہ گئیں

کیا ستم ہے کل تلک جو سامنے آنکھوں کے تھیں 

آج وہ سب صورتیں وہم و گماں پر رہ گئیں

داستان زندگی کے حرف کب کے مٹ چکے

کچھ لکیریں سی فقط اب داستاں پر رہ گئیں

وقتِ آخر چل دئیے تنہا سفر کی اور ہم

سب کی سب چیزیں جہاں کی اس جہاں پر رہ گئیں


امردیپ سنگھ

No comments:

Post a Comment