Monday, 17 November 2025

ہیں جتنے بھی روپ زندگی کے کسی پہ نہ اعتبار آیا

 ہیں جتنے بھی روپ زندگی کے کسی پہ نہ اعتبار آیا

وہاں سے دامن بچا کے گزرے جہاں پہ کوئی فرار آیا

ہوئی جو تقسیم راحتوں کی عنایتوں کی یا چاہتوں کی

کسی کے حصے میں نارسائی کسی کے بس انتظار آیا

وہ جس سے دل کے ہیں دیپ جلتے بس ایک چہرہ ہے شہر بھر میں

اس ایک چہرے پہ جانے کیسے ہمارا دل بار بار آیا

ہواؤں کی تھی ادا نرالی گھٹائیں چھائی تھیں کالی کالی

سنبھالے دل منتظر رہے ہم نہ ابر برسا نہ یار آیا

جنہیں نبھانے میں عمر بیتی انہیں گنوایا بس ایک پل میں

وہیں پہ رشتوں کا مان ٹوٹا جہاں دلوں میں غبار آیا

یہ دل بھی کیسی عجیب شے ہے وہ مانگے جو کہ نہ مل سکے ہے

جو دور ہے اس کی دسترس سے اسی پہ خود کو ہے ہار آیا


اقصیٰ فیض

No comments:

Post a Comment