جانے کس سمت سے بہا پانی
گھر سے نکلو کہ آ چلا پانی
منتشر میری داستان ہوئی
راستوں میں بکھر گیا پانی
میں بھی نکلا حصار رفعت سے
آبشاروں سے گر پڑا پانی
تشنہ لب قتل ہو گئے تو ہوا
پانی پانی فرات کا پانی
گونجتی رہ گئی خلاؤں میں
ایک بچے کی یہ صدا ۔۔پانی
پاس پہنچے تو ایک دھوکا تھا
فاصلے سے ہمیں لگا پانی
ایزد عزیز
No comments:
Post a Comment