ملنے ہم اپنے آپ سے جو اپنے گھر گئے
خود سے ملے نہیں تھے کہ پہلے ہی ڈر گئے
یہ سلسلے حیات کے بکھرے کچھ اس طرح
ہم آئے با خبر تھے، مگر بے خبر گئے
رکھا تھا زندگی میں ہر اک لمحے کا حساب
یہ لمحے تیری راہ میں خود ہی بکھر گئے
اب تک ہے مجھ کو یاد وہ چنچل ملن تِرا
جب چلتے چلتے سوچ کے دریا ٹھہر گئے
انداز وہ حجاب کے، پہلے مِلن کے وقت
نظروں میں یوں سمائے کہ دل میں اتر گئے
کچھ لوگ تھے جو موت کی آغوش میں پلے
"کچھ لوگ زندگی کی تمنا میں مر گئے"
آ کر جنوں نے ایسا تسلط جما لیا
سب تار و پود ہوش و خِرد کے بکھر گئے
کرشن مراری سہگل
No comments:
Post a Comment