تڑپ، بے چینیاں، تنہائیاں لے کر کہاں جاؤں
جو گھیرے ہیں مجھے پرچھائیاں لے کر کہاں جاؤں
کبھی مجھ پر لُٹاتی تھی جو اپنے بانکپن میں وہ
ادائیں، شوخیاں، رعنائیاں لے کر کہاں جاؤں
جو تیرے عشق نے تحفے میں بخشی ہیں مجھے جاناں
وہ تیرے نام کی رُسوائیاں لے کر کہاں جاؤں
کبھی یادیں ستائیں جب کسی کی، کیا کِیا جائے
چلیں ماضی کی جب پُروائیاں لے کر کہاں جاؤں
تمہاری کامیابی میں سمجھتا تھا میں جیت اپنی
تمہی سے ہار کر پسپائیاں لے کر کہاں جاؤں
میں اپنی ذات کی ویرانیاں بھٹکوں کہاں لے کر
یہ اپنے درد کی گہرائیاں لے کر کہاں جاؤں
یہ میری وحشتیں، بیتابیاں ہیں سیف دَین اُس کی
میں اُس کی یہ کرم فرمائیاں لے کر کہاں جاؤں
محمد سیف بابر
No comments:
Post a Comment