کہا جو حسن تمہارا رہا رہا نہ رہا
تو بولے پھر تو کہو کیا رہا رہا نہ رہا
حضور فاتحہ پڑھ جائیں آ کے اب اک دن
نشان میری لحد کا رہا رہا نہ رہا
جنابِ شیخ اڑا لو مزے جوانی میں
یہ دل یہ وقت ہمیشہ رہا رہا نہ رہا
شباب پر نہ کرو اے بتو غرور اتنا
کچھ اعتبار ہے اس کا رہا رہا نہ رہا
فہیم دل کی تمنا جو ہو نکال ہی لو
مزاج ان کا پھر ایسا رہا رہا نہ رہا
فہیم گورکھپوری
No comments:
Post a Comment