آدمی کو آگہی ملتی رہے گی
کربلا سے روشنی ملتی رہے گی
کیا کہوں زرخیزئ خونِ شہیداں
ہر قدم پر زندگی ملتی رہے گی
ضربتِ سجدہ کی ہیبت سے ہمیشہ
خاک میں اب بتگری ملتی رہے گی
کربلا سے رابطہ جب تک رہے گا
فکرِ نو کو تازگی ملتی رہے گی
مٹ نہیں سکتی عزاداری ہماری
ہر صدا اب ماتمی ملتی رہے گی
علی عمار کاظمی
No comments:
Post a Comment