Thursday, 20 November 2025

وقت ہم یوں گزار لیتے ہیں

 وقت ہم یوں گزار لیتے ہیں

جیسے مفلس ادھار لیتے ہیں

ٹوٹ جائے نہ دل مقابل کا

جیت پا کر بھی ہار لیتے ہیں

اپنے حصے کے پھول دے کے انہیں

ان کے حصے کے خار لیتے ہیں

کر کے تنہا سماج سے خود کو

قرض دل کا اتار لیتے ہیں

جب نہ تقسیم گھر کی ہو ہم سے

زلزلوں کو پکار لیتے ہیں

ان کا وعدہ فریب ہے پھر بھی

جانے کیوں بار بار لیتے ہیں

وہ بہاریں لٹا رہے ہیں چلو

عکس دل میں اتار لیتے ہیں

کھال زندہ شکار کی اکثر

حسن والے اتار لیتے ہیں

دل کے ارماں نہ مار دے کوئی

ہم انہیں خود ہی مار لیتے ہیں

ہم سے منکر نکیر شام و سحر

چاہتوں کا شمار لیتے ہیں


شاہین بھٹی

No comments:

Post a Comment