وقت ہم یوں گزار لیتے ہیں
جیسے مفلس ادھار لیتے ہیں
ٹوٹ جائے نہ دل مقابل کا
جیت پا کر بھی ہار لیتے ہیں
اپنے حصے کے پھول دے کے انہیں
ان کے حصے کے خار لیتے ہیں
کر کے تنہا سماج سے خود کو
قرض دل کا اتار لیتے ہیں
جب نہ تقسیم گھر کی ہو ہم سے
زلزلوں کو پکار لیتے ہیں
ان کا وعدہ فریب ہے پھر بھی
جانے کیوں بار بار لیتے ہیں
وہ بہاریں لٹا رہے ہیں چلو
عکس دل میں اتار لیتے ہیں
کھال زندہ شکار کی اکثر
حسن والے اتار لیتے ہیں
دل کے ارماں نہ مار دے کوئی
ہم انہیں خود ہی مار لیتے ہیں
ہم سے منکر نکیر شام و سحر
چاہتوں کا شمار لیتے ہیں
شاہین بھٹی
No comments:
Post a Comment