کون کہتا ہے کہ آسانی بہت ہوتی ہے؟
عشق میں ویسے پریشانی بہت ہوتی ہے
بِنتِ انگور! مِرے گھر میں مناجات کرو
جب بھی آتا ہوں میں وِیرانی بہت ہوتی ہے
اِس کا درجہ لب و رُخسار سے اُوپر ہے تبھی
چُومنے کے لیے پیشانی بہت ہوتی ہے
اُس کے اندازِ تکلّم کا میں شیدا تھا، مگر
اب اُسے دیکھ کے حیرانی بہت ہوتی ہے
شب کی ٹیبل پہ بکھرتا ہے تخیّل میرا
اس لیے بے سر و سامانی بہت ہوتی ہے
ابتسام انظر
No comments:
Post a Comment