Sunday, 23 November 2025

غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی

 غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی 

ہر ایک شعر میں آہ و فغاں نکلے گی 

سفر کی مشکلیں رونے کا فائدہ کیا ہے 

کہ جاتے جاتے ہی میری تھکان نکلے گی 

جبیں کے نیچے دو کشتی میں باندھ لی ہے ندی 

ضرور لے گی یہ اک دن اپھان نکلے گی 

یہ سارے طنز یہ طعنے یہ رشتے ناطے سب 

کہاں چھپیں گے جو میری زبان نکلے گی 

وہ جس نے خود پہ روایت کا رکھ لیا ہے قفس 

وہ ایک لڑکی میرا آسمان نکلے گی 

میں چند لمحے اگر زیست سے ہٹا دوں تو 

یہ میری زندگی بس خاکدان نکلے گی 

یہ ضبط صبر تبسم ہوئے ہیں چاک سبھی 

میں سخت جان ہوں لیکن یہ جان نکلے گی


دخلن بھوپالی

No comments:

Post a Comment